
خاکہ اول:
جس میں قومی دھارا وسیع ہے اور مختلف ثقافتی صفات کو شامل کرتا ہے اور رعایا اس سے متفق ہیں اور خود کو قومی دھارے میں شامل تصور کرتے ہیں۔
قومیت بنیادی طور پر قدرتی حیاتیاتی یکجہتی کا انسانی روپ ہے۔
حیوانات و نباتات میں جینیاتی تسلسل کی جبلت پائی جاتی ہے اور یہ ثابت شدہ ہے کہ سماجی جانور اپنے قریب تر جینیاتی رشتہ داروں کی فلاح کو ترجیح دیتے ہیں اور خاندان کی اجتماعی فلاح کے لیے ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ یہی رجحان قدرتی طور پر انسانوں میں اولاد اور والدین کے رشتے سے شروع ہوتا ہے، پھر قریب تر رشتہ دار ، ازدواجی رشتے، کنبہ، قبیلہ اور پھر قوم کی سطح تک پہنچ جاتا ہے۔ جہان جانوروں میں جینیاتی رشتہ رنگ و شکل، پکارنے کی آواز، علاقائیت، سماجی درجات کے قوائد کے ذریع آپس میں جانچا جاتا ہے وہاں انسانوں میں زبان، تہوار، مذہب، کھانا، موسیقی، لباس، فنون لطیفہ وغیرہ جیسی صفات یہ کردار ادا کرتی ہیں اور انہیں مجموعی طور پر ثقافت کا نام دیا جاتا ہے۔ چونکہ ثقافتی صفات جسمانی صفات کی طرح خون و نسل سے منتقل نہیں ہوتے بلکے سیکھے جا سکتے ہیں لہازہ ان پر مبنی اس قدرتی احساس یکجہتی میں شامل ہونے کے لیے خون کا رشتہ ضروری نہیں۔
ثکافت
اس کا یہ فائدہ ہے کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد میں احساس یکجہتی اجاگر کر کے انہیں ایسے مقاصد میں اجتماعی تعاون کے کیے راغب کیا جا سکتا ہے جہاں تعداد فیصلہ کن ہو، مثلاً جنگ، صنعت، سیاست وغیرہ۔ اس کی کمزوری یہ ہے کہ ثقافتی صفات غیر مستقل ہوتے ہیں اور کوئ بھی صفت اگر جمہور سے منفرد ہو جاۓ تو یہ تناؤ کا باعث بن جاتا ہے اور احساس یکجہتی کمزور ہو جاتی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ احساس قومیت اور قومی یکجہتی اس صورت میں سب سے مضبوط ہوتی ہے جب جمہور میں زیادہ سے زیادہ ثقافتی صفات پر اتفاق ہو اور یہ ممکن ہے کہ ثقافتی صفات کی دست کاری سے اس احساس کو مصنوعی طور پر بڑھایا یہ گھٹایا جا سکتا ہے۔
ادھر ریاست اور اداروں کی نوعیت اور ان کے کردار کی وضاحت کروں گا۔
ادارے در اصل ثقافتی صفات کی رسمی اور غیر شخصی شکل ہوتے ہیں۔ مثلاً لوک موسیقاروں سے موسیقی گھرانہ یہ طریقہ بن جانا، دائیوں سے حکیم اور پھر ہسپتال، فنون لطیفہ کا مدرسہ یہ مکتبہ فکر، وغیرہ۔ ثقافت اور تمدن میں بنیادی فرق دراصل اداروں کے وجود کا ہوتا ہے جو غیر رسمی غیر تحریری طور طریقوں کو رسمی، آئنی اور غیر شخصی بنا کر ان کے نفاذ کو عالمگیر پیمانے پر کارفرما ہونے کے قابل کر دیتے ہیں۔ اداروں کا کسی فرد یہ شخصیت سے غیر منسلک ہونا ان کا بنیادی تقاضا اور ان کی کامیابی کا راز ہے لیکن اس ہی وجہ سے ان کےسازوکار میں اپنے وجود کے تسلسل کی جبلت سی پیدا ہو جاتی ہے جیسے کوئی زندہ شے ہو ، اور یہ اپنے وجود کو قائم رکھنے کا خود جواز بناتے ہے اور اپنے آپ کو ختم ہونے سے بچاتے ہیں۔
ریاست انسانی اداروں کا ایسا مجموعہ ہے جو ایک قوم کے اجتماعی وجود کو رسمی اور غیر شخصی شکل فراہم کرتا ہے۔ ریاستی اداروں کی ارتقا اس ہی طرح ، قبائلی لشکروں کو منظم فوج ، بزرگوں کو پنچایت، قاضی اور پھر کچہری سے نظام عدل اور قبائلی سرداروں سے آئن و قانون پر مبنی حکومتی نظام بنا دیتی ہے۔
قومی ریاست کا موجودہ تصور ایک خاص پسمنظر میں یورپ میں تخلیق ہوا۔
سو سالہ جنگ
اس کی ابتدائ شکل کئ دیہائوں کی مزہبی اور شاہی خاندانوں کی آپس کی جنگوں کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ یورپ کئی چھوٹی سلطنتوں میں بٹا ہوا تھا جو مسلسل آپس میں جنگ کی حالت میں رہتی تھیں۔ ان میں سے سب سے کامیاب پرشیا کی ریاست ثابت ہوئ جس نے اپنے سماجی، معاشی، ثقافتی اور جنگی نظام کو انتہائی کارآمد اداروں میں ڈھال لیا اور جدید جنگی آلات سمیت مؤثر و مہلک ترین نظام جنگ دریافت کر لیا۔ باقی ریاستیں بھی اپنے اپ کو اس ہی کی شکل میں ڈھالنے لگیں اور پھر یورپ تیس سال کی بد ترین مسلسل خونریزی کے دور سے گزرا کہ جس میں شدید مقابلے کے باوجود کوئ فاتح طے نہ ہو پاتا۔ تھک ہار کر اس کے حکمرانوں نے امن کا معاہدہ طے کیا کہ ریاستوں کی جو بھی موجودہ سرحد بن چکی ہے اب یہی مستقل رہے گی اور جنگ کے ضریع کسی دوسری ریاست کا علاقہ فتح کرنا معاہدے کی خلاف ورزی سمجھا جاۓ گا۔ اسے ویسٹفالیہ کا معاہدہ کہا جاتا ہے جس کے بعد یورپ نے اپنی نئی عسکری قوت کا رخ باقی دنیا میں استعماری مقصد کے لیے موڑ دیا اور اپنی نوآبادیاتی اجارا داری قائم کر لی۔
پرشیا
اس سے پہلے ہمارے خطے میں اس کے بجاۓ سلطنت کا تصور تھا جن میں ایک شہنشاہ سے مختلف قبیلوں کے سردار وفاداری کا عہد کرتے تھے اور انفرادی شہریت یہ مستقل ریاستی سرحدوں کا کوئی تصور نہیں تھا۔ یورپی فاتحین نے اپنے زیر اثر تمام علاقوں میں ریاست کا وہی ویسٹفالی تصور مسلط کر دیا جو ان کے لیے اجنبی تھا۔
مشرق وسطہ اور بر صغیر کی سلطنتوں میں ایسی جنگی تعطل کی حالت کبھی واقع ہی نہیں ہوئ تھی جس میں مخالف ریاستیں مطعمین ہو جائیں کہ مزید جنگ کا کوئ نتیجہ نہ ہو گا اور موجودہ سرحدوں کو اجتماعی طور پر تسلیم کر لینا چاہیے۔ بلکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد استعماری قوتوں نے اپنی مرضی سے نقشوں پر فیتوں سے لکیریں کھینچیں اور چلتے بنے۔ یہ نئی ریاستیں کیونکہ اس مسلسل جنگ اور اس کے نتیجے میں شے مات کے عمل سے نہیں گزری تھیں لہازہ ان میں وہ اندرونی خلفشار کا عمل نہ مکمل رہ گیا تھا جس کے نتیجے میں یورپی ریاستوں نے نسل اور ثقافت (مذہب، زبان، لباس، تہوار، وغیرہ) کے اعتبار سے جبری طور پر اپنی عوام میں یکسانیت نافذ کر لی تھی اور کسی بھی اختلاف کو کچل دیا تھا۔ ان خطوں میں زیادہ تر سرحدی تنازعات اور باغی تحریکوں کی اصل وجہ یہی ہے۔
سائکس پیکو منصوبے کا نقشہ
ان ریاستوں میں قومیت کی تشکیل کا عمل نہ مکمل رہ گیا، لیکن ریاستیں، (استعماریت کی وراثت میں ملنے والے تمام جدید ریاستی اداروں سمیت)، مصنوعی طور پر، فیصلہ کن فتح یہ معاہدے کے بغیر ، وجود میں آ گئیں۔ کیونکہ ریاستی اداروں میں اپنے وجود کے تسلسل کی جبلت پائی جاتی ہے، یہ اندرونی اور بیرونی تنازعات کے خلاف متحرک ہو جاتے ہیں اور اختلاف کو کچلنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔
فوجی آمر
یاد رہے کہ ادارے آخر کار لوگوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور اگر ان سے منسلک افراد ان کو اپنے تحفظ یہ رزق کا ذمہ دار سمجھ لیں تو وہ اس کے تسلسل کے لیۓ اس کی ہر ممکنہ حمایت اور جد و جہد کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر محفوظ بعد از نوآبادیاتی ریاستوں میں فوج کا ادارہ اتنا مضبوط ہوتا ہے اور اس کو لوگوں کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔
خاکہ دوم:
جس میں قومی دھارا محدود ہے اور لوگوں کا ثقافتی صفات پر اتفاق نہیں۔ بہت کم لوگ اپنے آپ کو قومی دھارے میں شامل محسوس کرتے ہیں۔
خاکہ سوم:
جس میں ریاست کا قومی دھارے کا تصور ایک چھوٹے سے طبقے کی ثقافتی صفات پر مبنی ہے اور اکثریت کو شامل نہیں کرتا۔
ریاستیں قومی نظریہ اس لیے تشکیل کرتی ہیں کہ ثقافتی صفات کو ادارتی ترتیب دے کر “قومی دھارے” کی حدود متعین کر سکے۔ ان حدود سے اس کے ادارے یہ متعین کرنے کہ قابل ہو جاتے ہیں کہ کون سے شہری کس حد تک باقی جمہور کے ساتھ اجتماعی تعاون کے لیے تیار ہیں اور کون سے نہیں۔ (یاد کیا جاۓ کہ قوم اور پھر ریاست کے تصور کا مقصد ہی یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اجتماعی تعاون کے لیے راغب کیا جا سکے)۔
ادھر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ریاست کا نظریہ قومیت اور قومی دھارے کو تشکیل کرنے کا طریقہ، اس کے حدود اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کرنے کی وسعت، عوام میں رائج رجحانات سے مناسبت، اور شہریوں کا آپس میں ثقافتی صفات پر اتفاق یہ اختلاف، وہ عوامل ہیں جو ریاست کی استقامت اور افراد کی اس سے وفاداری کو متعین کرتے ہیں۔
ان کا آپس میں رشتہ سمجھنا ہمیں وہ آلات فراہم کرتا ہے جن کے ضریع ایک قوم میں استحکام یہ انتشار کو بڑھایا جا سکتا ہے۔
0 تبصرے