ہماری موجودہ پسماندگی اور بے بسی کا یہ عالم ہے کہ ہم ہر لحاظ سے اوروں کے محتاج اور آسرے پر ہیں۔ وطن کی زر خیز زمین اور بہتے دریا کے باوجود اپنے لوگوں کا پیٹ بھرنے کے لیےاناج ادھار لے کر باہر سے درآمد کرنی پڑتی ہے۔بڑی سے بڑی اور معمولی سے معمولی روزمرہ ضرورت کی اشیا، آلات یا ادویات، حتی کہ سرزمین پاک کے دفاع و سالمیت کے لئے درکار جدید جنگی ہتھیار کے لئے بھی ایسی بیرونی قوتوں پر منحصر ہیں جو پھر ان کے بدلے اپنی مرضی کی شرائط منواتے ہیں۔

آئین، قانون، نظام حکومت، نظام معیشت، نظام تعلیم سمیت ریاست کے لئے درکار طور طریقے، قوانین و ضوابط اوروں سے ہو بہو نقل ہیں اور بغیر مکمل جانچ پڑتال کے الٹے سیدھے لاگو کیے ہوۓ ہیں۔آزادی حاصل کیے ستر سال سے زیادہ گزرنے کے باوجود سامراجی نظام کے قائم کردہ قوانین، عدالتیں اور سرکاری ادارے اس ہی طری کارفرما ہیں اور اس ہی طرح رعایا سے محکوم غلاموں جیسا سلوک کرتے ہیں۔

علم و فکر کے اعتبار سے تقریباً مکمل طور پر اوروں کے محتاج ہو گئے ہیں۔ جدید ایجادات اور علمی انکشاف دریافت کرنا تو دور کی بات، ہمارا تعلیمی نظام عام معلوم موضوعات کو بھی طلبہ کے ذہنوں تک منتقل کرنے میں ناکام ہے۔

بنی آدم کی اجتماعی علمی ترقی کے سلسلے سے مکمل لاتعلق ہیں اور اس میں کسی قسم کی شرکت یہ شمولیت کرنے کی قابلیت نہیں رکھتے۔

چوٹی کا فن و ادب وہی سمجھا جاتا ہے جو دوسروں کے فن و ادب سے نسبت رکھتا ہو یہ جس کی تعریف کوئی اور کر دے۔ اپنی ثقافت سے جو ملا اس کو بے قدری میں بھولتے گئے اور ماضی کی سوغات بنا کے رکھ دیا۔

اپنی تاریخ بھی وہی صحیح مانتے ہیں جو دوسروں نے لکھی ہو۔ اپنے فاتحین کے کیے مظالم، انہی کی نسلوں کی زبانی جانے۔ اپنی شناخت اور مقام سے غافل ہو گئے اور پھر احساس کمتری کے سے خود کو کہیں اور ڈھونڈتے رہے۔ اگر اوروں سے ادھار لیا ہوا مواد لوٹا دیں تو ہمارے پاس کھانے پکوان کے علاوہ علمی سطح پے صرف مدرسے کا نساب باقی رہ جاتا ہے، صنعت کے اعتبار سے صرف دستکاری اور ہینڈیکرافٹ اور شعبہ طب میں صرف جوہر جوشاندہ اور مسواک۔

ہمارا اجتماعی وجود ایک طفیلی کا سا ہو گیا ہے جو کہ باقی انسانیت کے لیے ایک بوجھ سا معلوم ہوتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟ ہم اس حال میں کیسے پہنچے؟ اور اب ہم اپنی حالت کو کیسے بدل سکتے ہیں؟ یقیناً حالات ماضی میں تو اس طرح نہیں تھے۔

ہمارا تمدن دنیا کی بڑی سلطنتوں کا ملک تھا۔ مغل سلطنت اپنے عروج میں کابل سے بنگال تک پھیلی، دنیا کی امیر اور طاقتور ترین قوتوں میں سے تھی۔بر صغیر کے مسلمان مجموعی طور پر خود مختار اور کسی بیرونی قوت کی غلامی سے آزاد تھے، اور اپنے نظریے، عقائد اور تصورات کو دنیا میں معاشی، سماجی، علمی اور جمالیاتی سطح پر عملی طور پر کارآمد کرنے کی اہلیت اور قوت رکھتے تھے۔۔ یہ خطہ صنعت، کاریگری اور فن و ادب کے اعتبار سے دنیا میں بے مثال تھا اور دنیا بھر کے تاجر یہاں کاروبار کرنے کے خواہشمند رہتے تھے۔ ہم اس علم و عقائد کے ورثا تھے جو بنی آدم کی ہدایت کا حقدار تھا۔

پھر ایسا کیا ہوا کہ جیسے پلک جھپکتے چند سالوں میں سات سمندر پار اجنبیوں کے غلام بن گئے؟