وقفے وقفے سے نئے قرض ملنے کی اطلاعات پر حکومت کافی پرجوش نظر آ رہی ہے۔اس جوش کی کیفیت میں وہ ان عوامی خدشات کو بھی فراموش کئے ہوئے ہے جو نئے قرضوں کی خوشنما خبروں کے ساتھ لپٹے ہوئے ہیں۔ ڈیووس میں ڈونرز کانفرنس کے دوران اسلامی بنک‘ ایشین بینک‘ ورلڈ بنک اور دوست ممالک نے مجموعی طور پر 10ارب ڈالر سے زائد کا قرض فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔اس سے اگلے روز سعودی عرب نے 10ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور ڈیپازٹ اکائونٹ کو 5ارب ڈالر تک بڑھانے کا وعدہ کیا۔وزیر اعظم شہباز شریف نے فنڈز جمع کرنے کی کوششوں کے حصہ کے طور پر متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا جہاں امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان نے ڈیپازٹ اکائونٹ میں رکھے 2ارب ڈالر کی مدت میں توسیع اور ایک ارب ڈالر مزید جمع کرانے کا وعدہ کیا۔یاد رہے پاکستان ڈیپازٹ شدہ رقم پر منافع ادا کرتا ہے۔سعودی عرب کے ساتھ پاکستان نے ایک ارب ڈالر کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔اگرچہ 20ارب ڈالر سے زیادہ کے یہ قرضے بنیادی طور پر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے انفراسٹرکچر کی تعمیر اور سیلاب متاثرین کی بحالی کے منصوبوں پر خرچ کئے جائیں گے لیکن پہلے سے بھاری قرضوں میں جکڑے اہل وطن کا یہ حق ہے کہ حکومت نئے قرضوں کی نوعیت اور ان کی واپسی کے انتظامات سے متعلق انہیں اعتماد میں لے۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس سے معلوم ہوا ہے کہ ڈیووس کانفرنس میں وعدہ کئے گئے فنڈز میں سے 8ارب ڈالر کی رقم امداد یا گرانٹ نہیں بلکہ قرض کے طور پر پاکستان کو دی جائے گی‘ یہ قرض پاکستان کی جانب سے 16.3ارب ڈالر کا بحالی منصوبہ پیش کرنے پر فراہم کیا جا رہا ہے۔پاکستان نے وعدہ کیا ہے کہ بحالی منصوبے کی نصف رقم وہ اپنے وسائل سے خرچ کرے گا۔ حکومت کو آئی ایم ایف کے وفدکی آمد کا انتظار ہے۔ممکن ہے آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آئوٹ پیکیج کی اگلی قسط‘ نئے ٹیکسوں کے نفاذ اور قرضوں کی واپسی کے طریقہ کار پر ہونے والی بات چیت میں ایسی گنجائش دیکھنے کو مل جائے جو نئے قرضوں کی ادائیگی کے طریقہ کار اور شرائط کی وضاحت پر مبنی ہو۔آئی ایم ایف پاکستان کی جانب سے محاصل میں اضافے کے بندوبست سے مطمئن نہیں۔گزشتہ ماہ رواں مالی سال کے ٹیکس اہداف 1500ارب روپے کم رہنے کی رپورٹ سامنے آنے پر حکومت نے نئے ٹیکس اہداف مقرر کئے ہیں۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ ٹیکس جمع کرنے والی ٹیکسٹائل کی صنعت‘ تعمیرات و رئیل اسٹیٹ کے شعبے حکومتی پالیسیوں کے باعث زوال کا شکار ہیں۔کروڑوں افراد پچھلے 8ماہ میں بے روزگار ہو چکے ہیں‘90فیصد ٹیکسٹائل ملز بند ہو گئی ہیں۔حکومت کو ٹیکس محاصل کے ضمن میں 225ارب روپے خسارے کا سامنا ہے۔ یہ صورت حال اس وقت مزید ابتر دکھائی دینے لگتی ہے جب زرمبادلہ کے ذخائرایک ہفتے میں 4.5ارب ڈالر سے کم ہو کر 4.34ارب ڈالر تک غوطہ لگاتے نظر آتے ہیں۔ ڈیووس کانفرنس میں ملنے والی 90فیصد رقم پراجیکٹ قرضوں پر مشتمل ہے۔ اس کا مطلب سیدھے سبھائو یہ ہے کہ یہ فنڈز جس کام کے لئے آ رہے ہیں اسی پر خرچ کئے جا سکیں گے۔حکومت کی ساکھ عالمی سطح پر اچھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارے ایسے آن لائن سروے کرا رہے ہیں جن میں پوچھا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان قرضوں کا شفاف استعمال ممکن بنا سکے گا۔قرضوں کی واپسی سے متعلق سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ وطن عزیز میں سیاسی انتشار اور عدم استحکام نے معیشت کے ہاتھ پائوں باندھ رکھے ہیں۔سیاسی جماعتوں‘ خصوصاً پی ڈی ایم کے بس میں جو کام ہے وہ فوری طور پر سیاسی انتشار کا خاتمہ کرنا ہے۔پی ڈی ایم نئے انتخابات کا اعلان کر کے‘ سیاسی مخالفین سے مذاکرات‘ انتخابی اصلاحات اور معاشی ایجنڈے پر تمام قوتوں کو بات چیت کی دعوت دے کر غیر یقینی پن کا خاتمہ کر سکتا ہے‘ حکمران اتحاد سے یہ توقع باندھنا جتنا سہل ہے عملی طور پر اس کے امکانات اتنے ہی کم ہیں جس کے باعث معاشی اقدامات فائدہ مند ثابت نہیں ہو رہے۔ پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان برادرانہ تعلقات آزمائے ہوئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے ہمیشہ مل کر پاکستان کے لئے ادھار تیل ، قرض اور ڈیپازٹ میں رکھنے کے لئے زرمبادلہ فراہم کیا۔ وزیر اعظم یو اے ای سے ایک بار پھر مدد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن اس امر کی یاددہانی ضروری ہے کہ پرویز مشرف دور میں پی ٹی سی ایل کی نجکاری کی مد میں یو اے ای نے پاکستان کے 800ملین ڈالر ابھی ادا کرنا ہیں۔ پاکستان اور یو اے ای کے درمیان کنٹینر ٹرمینل کے معاملے پر بھی اختلاف موجود ہے۔ایسے اختلافی معاملات اکثر اوقات باہمی تجارت اور سرمایہ کاری میں رکاوٹ کا باعث ہوتے ہیں اس لئے ان کو جس قدر جلد ہو نمٹا دیا جاتا ہے۔ وطن عزیز میں غیر ملکی قرضوں کے غیر شفاف استعمال اور ان کی واپسی کے مبہم طریقہ کار پر شکوک منڈلاتے رہے ہیں۔اگرچہ وزیر اعظم یہ وعدہ کر رہے ہیں کہ قرضوں کا استعمال شفاف ہو گا لیکن اس سلسلے میں واپسی کا طریقہ کار پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جانا ضروری ہے تاکہ اگلی حکومت ناصرف ان قرضوں کے متعلق ذمہ دار ہو بلکہ بین الاقوامی شرائط پورا کرنے کے لئے عوامی حمایت کے ساتھ فرائض ادا کر سکے۔