امریکی ڈالرکی پرواز جاری ہے، جس کے باعث پاکستانی روپیہ تاحال سنبھل نہیں پایا ۔گزشتہ روز کاروبار کے آغاز سے ہی امریکی ڈالر نے اچانک اونچی اڑان بھرنی شروع کی، جو اب تک رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت 24 روپے 11 پیسے بڑھ کر 255 روپے پر پہنچ گئی۔اوپن مارکیٹ میں ڈالر 12 روپے مہنگا ہو کر 255 روپے میں مل رہا ہے۔انٹر بینک میں ڈالر بیچنے والے 262 روپے مانگ رہے ہیں۔ ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کے چیئرمین نے گزشتہ روز ڈپٹی گورنر سٹیٹ بنک سے ملاقات کی تھی ، جس میں آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق ڈالر کو فری فلوٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیاتھا ، گزشتہ روز جیسے ہی ڈالر پر عائد کیپ ہٹایا گیا تو اچانک اس کی قیمت میں کو پَر لگ گئے ۔اور قیمت 255روپے تک جا پہنچی ،اس سے نہ صرف قومی خزانے پر بوجھ پڑا بلکہ بیرونی قرضوں میں بھی یکمشت کئی ارب روپے اضافہ ہو گیا ۔جبکہ امپورٹ اور ایکسپورٹ پر بھی اس کے بڑے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔گزشتہ روز سے یہی کہا جا رہا تھا کہ جب لوگوں کو ڈالر ملنا شروع ہو جائیگا تو بلیک مارکیٹ ختم ہو جائیگی اور آہستہ آہستہ ریٹ نیچے آنا شروع ہوجائیگا۔لیکن ایک بات واضح ہے کہ ہمارا ڈالر پر کیپ لگانے کا فیصلہ منفی ثابت ہوا‘ ڈالر کا ریٹ بجائے کم ہونے کے الٹا بڑھ گیا اور مارکیٹ میں ڈالر دستیاب بھی نہیں ہے، جس کی وجہ سے بلیک مارکیٹ وجود میں آگئی ہے، جن لوگوں کو ڈالر کی ضرورت ہوتی تھی وہ لوگ بلیک مارکیٹ میں جارہے تھے، جس کی وجہ سے مارکیٹ میں ایک خو ف و ہراس تھا۔ اسی بنا پر اسٹیٹ بینک اور ایکسچینج کمپنیوں کی بہت بدنامی ہو رہی تھی۔ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے پہلے دو رمیں بھی ڈالر پر کیپ لگا کر اس کی قیمت کومنجمدرکھا تھا،تب بھی جب ڈالر کو فری فلوٹ کیا گیا تو اسے پَر لگ گئے ۔وزیر خزانہ کا یہ تجربہ ہمیشہ ناکام ثابت ہوا ہے ۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ورچوئل مذاکرات میں عالمی مالیاتی ادارے نے کئی قسم کے مطالبات منوائے تھے ،تبھی جا کر اس نے دوبارہ سے پاکستان کو امداد دینے کی حامی بھری ہے ۔ آئی ایم کے تین اہم مطالبات مانے گئے ہیں،جن میں پہلے نمبر پر زرمبادلہ کی قدر کا آزادانہ تعین ہو‘ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانا ہوں گے، اور جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس کو بڑھانا ہے ۔وفاقی حکومت نے دیگر شرائط پوری کرنے کیلئے کام شروع کردیا۔ منی بجٹ کا مسودہ حتمی مراحل میں داخل ہوگیا ہے جس کے تحت متعدد لگژری اشیاء پر اضافی ڈیوٹی عائد کی جا رہی ہے اور 70 ارب روپے کے لگ بھگ اشیاء پر دی جانے والی ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے کی تجویز ہے۔ نان فائلرز کی بینکنگ ٹرانزیکشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پر غور کیا جارہا ہے۔ تجویز کے تحت یومیہ 50 ہزار روپے سے زیادہ کی بینک ٹرانزیکشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس عائد ہو سکتا ہے، ایکٹو ٹیکس پیئرز لسٹ میں شامل افراد پر مجوزہ ٹیکس لاگو نہیں ہوگا۔ نان فائلرز پر ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے سے 45 سے 50 ارب روپے آمدن کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ گیس مہنگی کرنے اور پٹرول لیوی بھی بڑھانے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ بجلی کے ریٹ بڑھانے کے حوالے سے بھی اقدامات کئے جائیں گے۔حالیہ سیلاب سے ایک طرف تو پاکستان میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور انفراسٹرکچر کے علاوہ فصلیں وغیرہ تباہ ہوئیں اور دوسری جانب معیشت کے دبائوکا شکار ہونے کی وجہ سے عدم استحکام میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک رپورٹ میں کہا گیاہے کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب کے باعث غربت اور مہنگائی بڑھ گئی ہے، جس سے مزید 90 لاکھ تک افراد غربت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، رواں مالی سال میں پاکستان کی معیشت کی شرح نمو صرف 2 فیصد رہنے کا امکان ہے اور معیشت کی بحالی بتدریج ہوگی۔ اگلے مالی سال میں حقیقی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرحِ نمو 3.2 فیصد تک جانے کا امکان ہے۔ ورلڈ بینک کے ابتدائی تخمینے بتاتے ہیں کہ پاکستان میں غربت کی شرح 2.5سے 4فیصد پوائنٹس تک جاسکتی ہے اوراخراجات بڑھنے اور ٹیکس ریونیو میں کمی کا خدشہ ہے۔ خوراک اور توانائی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگائی کی شرح 23 فیصد تک رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔اب آئی ایم ایف کی جانب سے جو ٹیکس لگانے کی شرائط سامنے آئی ہیں ،ان پر عملدرآمد ہونے کے بعد مہنگائی کا طوفان آئے گا ،جسے روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گا ۔ ابھی تک حکومت نے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کچھ نہیں کیا وہ لوگ مہنگائی کے ہاتھوں زندہ درگور ہو رہے ہیں ،اب مزید مہنگائی کے بعد ان کی زندگی اجیرن ہو جائے گی ۔ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد اب ہر چیز کی قیمت کو پر لگ جائیں گے ،جبکہ نگران حکومتوں کے پاس وہ صلاحیت ہی نہیں ہوتی کہ وہ عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مہنگائی کنٹرول کرسکیں ۔حکومت آئی ایم ایف کے حکم پر مزید دو سو ارب ڈالر کے ریونیو بڑھانے کے لیے کوشاں ہے ،جبکہ دو صوبوں سمیت قومی اسمبلی کے ڈیڑھ سو سے زائد حلقوں میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں، ان حالات میں حکمران طبقے کا بوریا بستر ہی گول ہو جائیگا لہٰذا انھیں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے اقدامات کرنے چاہیں