
کرٹس یارون اور صدر جنرل پرویز مشرف
ستائیسویں آئنی ترمیم کے بعد اب آئین پاکستان کی حیثیت عملی طور پے کسی جمہوریت و حریت پر مبنی سماجی معاہدے کے بجائے ایک محکماتی “رول بک” کی بن کے رہ گئی ہے۔ مقتدر حلقے بظاہر آ خرکار اپنی پرانی خواہشات کے مطابق جمہوریت کا مکمل بندوبست کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور بلا مخالفت متوقع اٹھاسیویں، انتیسویں، اور دیگر ترمیموں کے ساتھ سریعت سے اس حدف کی طرف گامزن ہیں۔
اس پر مغرب کی طرف سے پراثرار خاموشی، جمہوریت پسند روشن خیال ساتھیوں کے لیے حیران کن ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ موجودہ مغربی حکمرانوں اور دانشوروں کی کسی وقتی خود غرض مفاد پرستی کا نتیجہ ہے، اور اس امید سے ہیں کہ جون لوک اور روسو کے ورثا عنقریب اس سحر سے جاگ اٹھیں گے اور تیسری دنیا کے مسکینوں کے لیے ایک بار پھر انسانی عزت نفس، آزادی رائے، اور خود ایرادیت کا علم بلند کر اٹھیں گے اور ہمارے اکابرین کو آئین بحال کرنے پر مجبور کریں گے۔
میرے خیال میں صورتحال اب اتنی سادہ نہیں رہی اور پاکستانی جمہوریت پرستوں کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی پامالی پر مغرب کی یہ خاموشی اور لاتعلقی صرف کسی وقتی تدبیر کی تحت نہیں بلکہ اس کے پیچھے مغربی دائیں اور بائیں کے سیاسی و سماجی افکار میں پچھلے سالوں میں کچھ غیر روایتی ارتقا ہے جن سے مقامی مقتدرہ بھی اشارے اور دلائل حاصل کر رہی ہے اور موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تیزی سے نظام کو مستقل طور پر تبدیل کر رہی ہے۔ شائد اس ادراک کے تناضر میں احتجاجی زیادہ موثر حکمت عملی اور سیاسی فکر و بیانیا مرتب کر سکیں جو عوام کے دلوں میں بھی جڑ لے سکے، غیر جمہوری قوتوں کے دلائل کا جواب دے سکے اور مغرب کے بہرے کانوں کی توجہ اور ہمدردی لینے میں بھی زیادہ موثر ہو۔
مغربی، اور خاص کر امریکی سیاسی فکر ایک زمانہ توزیع سے گزر رہی ہے اور عملاً وہاں کی سیاست اپنے روایتی بنیادی اقدار سے منہرف ہو چکی ہے۔
دائیں طرف ایک جدید “نیئو ریاکشنیری” فکر ہے جو اپنے آپ کو “ڈارک انلائٹنمنٹ” کہتی ہے اور جس کا بے تاج بادشاہ کرٹس یارون نامی ایک سیاسی فلسفی اور کالم نگار ہے۔ کرٹس کو تکنیکی سرمایہ کار اور سیاسی مفکر پیٹر تھیل کا درباری فلسفی مانا جاتا ہے جس کا ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر منتخب ہونے میں بااثر کردار تھا اور جسے امریکی نائب صدر کا گرو اور مشیر سمجھا جاتا ہے۔
کرٹس کی فکر کا بنیادی دعوہ یہ ہے کہ جمہوریت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اور سب سے کارآمد طرز حکومت در اصل بادشاہت ہے۔ وہ موجودہ دور میں نجی تکنیکی کمپنیوں کے سربراہوں کو بادشاہوں سے تشبیہ دیتا ہے اور اس طرز حکومت کی دلیل میں جدید دور کی جمہوری ریاستوں کے مقابلے میں ان کمپنیوں کی موثر کارکردگی، منافع، اور تکنیکی جدت کو دلیل کے طور پے پیش کرتا ہے۔ کرٹس کا ماننا ہے کہ حکمرانی ایک پیچیدہ فن ہے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور اس کے لیے خاص چنے گئے تربیت یافتہ افراد درکار ہوتے ہیں جو اپنے نیچے حسب ظرورت درکار مختلف شعبوں کے ماہرین تعینات کر سکیں۔ وہ کہتا ہے کہ عام عوام کا حکومت اور حکمرانی کی پیچیدگیوں سے نہ کوئی لینا دینا ہوتا ہے، نہ ان کو یہ باتیں سمجھ آتی ہیں اور نہ انہیں ان کی فکر کرنی چاہیے ہے۔ اس کے مطابق جمہوریت میں عوامی چناؤ کے زریعے انتخابات کا عمل نہ صرف ایک دھوکا ہے بلکہ اس سے عوام اپنا نقصان کر بیٹھتی ہے کیونکہ سیاستدان ان سے جھوٹ بول کے منتخب ہوتے ہیں اور پھر وعدوں سے مکر جاتے ہیں اور حقیقی مقتدرہ کی ہی ایما پر چلتے ہیں۔ یہ سیاستدان صرف اس دھوکے کی خاطر شہرت اور معاوضہ وصول کرتے ہیں اور تکنیکی مہارت نہ ہونے کی وجہ سے حکمرانی بھی نہیں جانتے لہازہ یہی بہتر ہے کہ ان سے جان چھڑائی جائے اور ایک قابل فاضل آمرانہ تکنیکی بادشاہت قائم ہو تاکہ عوام الناس اپنی روٹی کپڑا اور مکان کے حصول میں اپنی توجہ مرکوز رکھیں اور معیشت میں حصہ ڈالیں۔ کرٹس کے مطابق تاریخ کا سب سے بہتر انجام یہ ہو گا کہ تمام ممالک ختم ہو جائیں اور دنیا چھوٹی چھوٹی کارپوریٹ شہری ریاستوں میں بٹ جائے جو جدید بادشاہتی کمپنیوں کی طرح چلائی جائیں۔ وہ اس تصور کو “پیچ ورک” یا پیوندکاری کا نام دیتا ہے۔ یعنی پوری دنیا ایک ایک شہر کی کارپوریٹ ریاستوں پر مبنی ہو،جیسے آپس میں سلے رنگ برنگے ٹکڑوں سے بنی چادر۔
یہ دلائل یقیناً پاکستانیوں کو سنے سنائے لگ رہے ہوں گے کیونکہ ہم یہ سب اپنی مقتدر کمپنی اور اس کے حامیوں اور درباریوں کی زبانی دہایوں سے، اور اکثر مزہبی تڑکے کے ساتھ، سنتے آ رہے ہیں اور آج کل ایک بار پھر سے یہ بیانیہ پھر سے مخصوص کرداروں کی زبان دراز ہے۔
مثلا یہ کہ جمہوریت غیر اسلامی ہے، بیکار ہے، پاکستانی قوم کے مزاج کے مطابق نہیں، جمہوری انتخابات میں انسان گنے جاتے ہیں تولے نہیں جاتے، جاہل اور فاضل دونوں کا ووٹ برابر کیسے ہو سکتا ہے، اسلامی حکومت میں تو منتخب کردہ خلیفہ ہوتا ہے جس کی عطاعت فرض ہے، سیاستدان بددیانت اور جھوٹے ہوتے ہیں، جاہل سیاستدانوں سے بہتر ہے تعلیم یافتہ ٹیکنوکریٹ ماہرین حکومتی شعبوں کو شنبھالیں، عوام کو کیا غرض کون حمکران ہے انہیں تو اپنے بچوں کی روٹی اور تعلیم پر توجہ دینی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔
حالیہ عرصے میں ان دلائل میں یہ بھی شامل ہو گیا ہے کہ “سٹیو جوبز کونسا الیکٹ ہوا تھا؟ آئی فون کے کمالات دیکھو” اور یہ کہ “اب تو مغرب میں بھی جمہوریت ناکام ہو چکی ہے، جین اور خلیجی ریاستوں نے اُن کو پیچھے چھوڑ دیا ہے”۔ آج کل پھر سے ایک خدا کی طرف سے منتخب مرد حق کی پیشن گوئیاں کی جا رہی ہیں جس کی قیادت میں مملک خداداد ایک سنہری دور مین داخل ہو جائے گا اور آخر زماں کی پیشنگوئیاں پوری ہوتی نظر آئیں گی۔
کرٹس اور پاکستانی مقتدرہ کی جمہوریت کے متعلق خیالات میں مناسبت جہاں ایک دلچسب اتفاق ہے وہاں یہ بھی قابل زکر ہے کہ کرٹس اپنی تحریروں میں کچھ عرصہ قبل پاکستانی سیاست پر لکھ چکا ہے اور اپنی کچھ تحریروں میں اس وقت کے فوجی عامر جنرل مشرف کو براہ راست مشورہ دیتا ہے۔
عمران خان کا پاکستان، دائیں طرف اوپن سوسائٹی اور بائیں طرف پیچ ورک کے درمیان معلق۔
نومبر ۲۰۰۷ میں ایک کالم “صدر مشرف کو مشورہ” (۱) لکھتا ہے جس میں واضح نصیحت کرتا ہے کہ “اگر میں صدر مشرف ہوتا تو یہ کرتا۔ ایک، پاکستانی آئین کو منسوخ کرتا۔ اسے معطل نہ کرتا - اسے سرے سے ختم کر دیتا۔”
آگے لکھتا ہے “دو، پاکستان میں سیاست کو ختم کرو۔ برصغیر پاک و ہند میں سیاسی جمہوریت ناکام ہو چکی ہے۔ اس کا ریکارڈ بدترین طور پر قاتلانہ، اوسطاً مجرمانہ اور بہترین طور پر ذلت آمیز ہے۔”
آگے قدم قدم کی تفصیلی حکمت عملی بھی دیتا ہے: “تمام پاکستانی ججوں، صحافیوں اور ایڈیٹرز، اساتذہ اور پروفیسروں، این جی او کے ملازمین، اور سیاستدانوں کو غیر رضاکارانہ طور پر ریٹائر کر دیا جائے”۔ میڈیا پر کنٹرول، نجی کاروبار پر قبضہ، کشمیر پر ہندوستانی قبضے پر سمجھوتا، ہندوستان کو ایٹمی ہتھیار کی دھمکی، جہادی تنظیموں کا خاتمہ، مدرسوں کی رجسٹریشن اور کنٹرول، افغان سرحد کو بند کر دینا۔
یہ اعلان کر دینا کہ پاکستان کا مستقبل دبئی جیسا ہو گا۔ آخرکار پاکستان کو ایک نجی کمپنی کی طرز پر ایک خودمختار کارپوریٹ ریاست بنا کر اس کی ملکیت فوج کے افسروں میں بانٹ دینا کیونک آخر ابھی بھی غیر رسمی طور پر ایسا ہی ہے تو اس کو کیوں نہ رسمی بھی کر دیا جائے؟
اُس وقت یہ بھی تجویز دی تھی کہ امریکہ سے تعلق ختم کر کے چین کی طرف رخ کیا جائے البتہ اس وقت آج کی طرح کرٹس کی پسندیدہ حکومت وائٹ ہاؤس میں براجمان نہیں تھی۔
کیا یہ سب محض ایک اتفاق تھا؟ کرٹس کے مشورے ہماری مقتدرہ کے کانوں تک کبھی پہنچے بھی یا نہیں؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن اس بات کا ظرور اندازہ ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی تحریک سے عدم دلچسبی اور فوجی آمریت سے ہمدردی اب ایک نظریاتی رنگ لے چکی ہے۔
کچھ لوگ کہیں گے “تو کیا ہوا، جیسے ہی دائیں بازو کے ڈیموکریٹس نے امریکی حکومت سنبھال لی تو یہ سب مثلا ختم ہو جائے گا اور ہماری تحریک رنگ لائے گی”۔ وہ لوگ پچھلی بائڈن حکومت کی بھی پاکستان میں ریاستی بربریت اور جبر پر خاموشی اور لاتعلقی بھول چکے ہیں۔
انہیں شائد اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ یہ کوئی غلط فہمی یا جمہوریت کے عقائد سے منافقت نہیں تھی بلکہ ان کے اعمال جدید لبرل فکر کے عین مطابق تھے جس کا پسمنظر سمجھنا ظروری ہے۔
دوسری جنگ عظیم ہٹلر کے خلاف لڑی گئی تھی جو اپنی قوم کے جمہور کی طاقت اور حمایت سے اقتدار میں آیا تھا اور پھر ہولوکاسٹ کا مرتکب ہوا۔ یہ لبرل جمہوریت کے مفکرین کے لئے ایک پریشان کن المیہ تھا جو یہ مانتے تھے کہ جمہوریت ہی فسطائیت کا توڑ ہے۔
اس سوال کے جواب میں سب سے پر اثر کام کارل پوپر نے اپنی کتاب “Open society and its enemies” میں دیا جو جدید لبرل جمہوری فکر کا ایک اہم سطون ہے اور جس میں پاکستان میں جمہوریت پسندوں کی مایوسی کا اصل راز ہے۔ پوپر کی اوپن سوسائٹی کے تصور سے متاثر ہو کے جورج سوسروس نامی سرمایہ کار نے بینالاقوامی غیر حکومتی ادارے قائم کیے جو پوری دنیا میں اور پاکستان جیسے ملکوں میں اس کے تصورات کے فروغ کا کام کرتے ہیں (ادھر یہ قابل زکر ہے کہ کرٹس یارون جورج سوروس کو اپنا نطریاتی حریف مانتا ہے) ۔ اوپن سوسائٹی کا تصور یہ کہتا ہے کہ ایک یکساں اکثریت سے منتخب کردہ حکومت سے آمریت کا دروازہ کھلتا ہے اور جمہوریت کے لئے بہتر یہ ہے کہ بہت سی اقلیتی جماعتیں مل کر ایک اتحاد بنائیں تاکہ کوئی ایک جماعت باقیوں پر حاوی نہ ہو سکے۔
اس وجہ سے پاکستانی لبرل دانشور ہمیشہ تحریک انصاف (جو ماورائے طبقات، بھاری اکثریت کی نمائندہ جماعت ہے) پر مظالم کا زکر ہونے پر فوراً اقلیتی جماعتوں اور تنظیموں کا (بلوچ یکجہتی، پشتون تحفظ، عورت مارچ) موازنہ اور انحصار کرنے لگتے ہیں۔ اقلیتی جماعتوں کی تحاریک اور مطالبات جہاں بالکل جائز اور برابر قابل ہمدردی ہیں وہاں لبرلز کا ان پر تزکرہ حقوق و انصاف کی فکر کے بجائے نظریاتی ہوتا ہے یعنی ان کو اوپن سوسائٹی کے نظریے کے مطابق اکثریتی جماعت کے مقابلے میں پیش کرنا۔
پوپر اپنی کتاب میں جمہوریت میں موجود تظادات بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بے لوث تحمل پسند معاشروں میں غیر متحمل قوتیں قابض ہو جاتی ہیں۔ جمہوریت میں اکثریت ایک آمر کا بھی انتخاب کر سکتی ہے جو جمہوریت کو ختم کر دے اور انتخابات کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کر دے اور آمرانہ حکومت قائم کر دے۔ پوپر کہتا ہے کہ اس خوفناک نتیجے سے بچنے کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ شدید قوت اور جبر سے غیر جمہوری سوچ والے مخالفین کو کچلنا اور جڑ سے ختم کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ جمہوریت کی بقاء کے لیے واجب ہے۔
پوپر کو بدقسمتی سے یہ تظاد نظر نہیں آیا کہ وہ آمریت کے خوف سے ایک اور قسم کی آمریت اور جبر کا دروازہ کھول رہا ہے۔ اس کے مطابق جہاں آئین، قانون اور جمہوریت افضل ہیں وہاں جدید لبرل سوچ کے لئے یہ سب کسی بھی قیمت پر آمریت کے رد کے تابع ہیں بے شک وہ قیمت خود آمریت ہی کیوں نہ ہو۔
موجودہ دور میں یہ تصور مغربی حکمرانوں میں تب مظبوط ہوا جب دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ کے بعد عرب بہار کی تحریکوں کے نتیجے میں عراق، افغانستان، لیبیا، شام، مصر وغیرہ میں لبرل جمہوریتیں قائم نہ ہو سکیں اور جہاں جمہوری چناؤ ہوا وہاں اکثریت سے اسلامسٹ جماعتیں اقتدار میں آنے لگیں۔ مغربی مفکرین کے کانوں میں ہٹلر کے دوبارہ ظہور کے خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ مغرب نے یہ طے کر لیا کہ اس خطے کے لوگ جمہوریت کا قابل ہی نہیں ہیں اور ان پر فالحال آمریت ہی صحیح ہے۔
پاکستان میں لبرل طبقے نے امران خان کے اقتدار میں آتے ہی یہ مقدمہ دنیا کے سامنے زور و شور سے پیش کرنا شروع کر دیا تھا کہ یہ ایک اسلامسٹ اور آمریت پسند سوچ رکھتا ہے اور بے شک یہ مقبول ہے اور جمہوریت کے رستے اقتدار تک پہنچا ہے لیکن یہ جمہوریت کا دروازہ بند کر دے گا۔ شاید ان کی یہ آواز اس وقت کے مقتدر مغربی لبرل ڈیموکریٹ حکومتوں کے کانوں تک جا پہنچیں۔
پھر ہوا یہ کہ آمریت کے خوف سے انہوں نے خود ہی پاکستانی جمہوریت کو لپیٹ دینے کی خاموشی سے حمایت کر دی اور پاکستانی ریاست پوری قوت سے حرکت میں آ گئی اور آمریت نافذ کر کے اور آئین کو مسخ کرتے ہوئے جمہوریت پچا لی۔
پاکستانی جمہوریت پسند احتجاجی تحریک کے اکابرین اور دانشوروں کو اس پسمنظر کے تناظر میں نیا لائحۂ عمل تشکیل دینا ہو گا جو نظریاتی طور پے مظبوط ہو، جو عوام الناس کے دلوں میں اتر سکے اور جو با اثر بیرونی طبقوں کی توجہ لینے اور ان کا اس تحریک کے حق میں نقطہ نطر بدلنے میں مفید ہو۔
(۱)
https://www.unqualified-reservations.org/2007/11/urs-advice-for-president-musharraf/
0 تبصرے