
یہ تحریر جنوری 2024 میں لکھی گئی تھی۔
جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے اور فریب کی بنیاد پر کیا کوئی بھی کام اپنے اندر موجود تظادات کبھی نہ کبھی اگل دیتا ہے۔ میرا گمان ہے کہ رام مندر کی پیشگی تقدیسی تقریب وہ موقع ثابت ہو گی جس کے تسلسل میں ہندوتوا مہم میں موجود بنیادی تظادات اگل کے سامنے آ جائیں گے۔ رام مندر کی تقدیس کی تقریب میں چاروں شنکراچاریہ (جو کہ روایتی ہندو مذہب کے سربراہ ہیں) نے شمولیت سے انکار کر دیا ہے کیونکہ اس کے رسومات میں نریندر مودی شامل ہو گا جو کہ پسماندہ زات سے ہے۔ یہ ایک عجیب بات لگتی ہے لیکن اس کا پس منظر اس کی اہمیت اور چھپے تضاد ات کی نشاندہی کرتا ہے۔
بابری مسجد کو شہید کر نے اور رام کی مبینہ پیدائش گاہ پے مندر بنانے کی مہم ایسی جماعت نے چلائی تھی جس کے بانی خود برہمن زات سے تھے لیکن ملحد اور ناستک تھے یعنی جو خود ہی رام کے وجود میں یقین نہیں رکھتے تھے اور ویدہ کو نہیں مانتے تھے۔ یہ لوگ انگریز راج کے بعد ہندوستان پر اپنی مکمل اجارہ داری قائم کرنا چاہتے تھے لیکن آزادی کے بعد قائم جمہوری نظام میں ان کی عوامی مقبولیت اتنی نہیں تھی کہ اکثریتی حکومت بنا سکیں۔ ہندوستان کی بڑی آبادی پسماندہ شودر زات سے تعلق رکھتی ہے جو چھو اچھوت کے نظام سے تنگ تھے۔
امبیدکر نے ان کے قائد کی حیثیت سے کوشش کی تھی کہ ان کو زات پات کے نظام سے آزاد کیا جائے اور ایک موقع ہر اس بات پر بھی غور کیا کہ اسلام قبول کرنے سے حریت حاصل ہو جائے لیکن پھر اس نے بدہ مت کو قبول کر لیا اور کوشش کی کہ جمہوری آئن میں ان کی آزادی کے تحفظ کا انتظام کیا جائے۔
اس طبقے نے نہرو کے اشتراکیت اور مساوات کے وعدوں کے پیچھے کانگریس کی حمایت کی اور ان کی عددی اکثریت کی وجہ سے اس کی حکومت دیہائوں قائم رہی۔ البتہ معاشی و سماجی بہبود کے منصوبے انہیں زات پات کے نظام اور مزہبی و سماجی پسماندگی سے آزاد نہ کر سکے بلکہ اسے قائم رکھنے میں ہمدست ہو گئے۔
ہندوتوادی اپنی حکومت بنانے کے لیے ان کے ووٹوں کے بھوکے تھے اور انہوں نے اس پسماندہ طبقے کی اس نفسیاتی اور مذہبی احساس کمتری پر کھیلا۔ ہندوتوا نے انہیں ایک نیا خواب دکھایا: ان سے کہا کہ تم اچھوت تو نہیں بلکہ ایک عزیم تمدنی اور مذہبی جنگ کے سورما ہو۔۔۔
س ذہن سازی کے لیے رام لیلہ کی کہانی کو روایتی ہندو مذہب سے ادھار لیے کر استعمال کیا گیا: بتلایا کہ جیسے ہنومان کے بندر سیتا کو راون سے بچانے میں رام کی سینا بنے ویسے ہی تم ہماری جنگ میں پیادے بن جاؤ۔ ایسے انہیں حقارت سے اونچی زات کی نظر میں عزت و مقام پانے کا راستہ مل کیا۔
بس آدوانی کی رام رکھ یاترا چل پڑی اور اس خیالی جنگ کا نشانہ ایک کھنڈر زدہ مسجد کی عمارت کو بنا دیا اور بھاجپا کی مقبولیت دن دگنی رات چگنی ہوتی گئی۔ اس ہنومان سینا کو سحر میں رکھنا ہی حکومت میں رہنے کا گر تھا۔
اگر کانگریس معاشی اور سماجی مساوات کی دعویدار تھی تو بھاجپا معاشی، سماجی اور روحانی مساوات بیچتی تھی۔ پشتوں کی ذلت اور سماجی پستی آج کے راونوں کو اپنے زور بازو سے مار کاٹ کے دھل جانے کا وعدہ۔ ایسی خود داری اور پھر اس تمدن میں حصہ جس نے اب تک کچل رکھا تھا۔
لیکن آخر میں کیا اس جنگ اور اس کا مقاصد کے حصول کے کیے معصوم خون بہانے والے بندر اس کے جشن میں برابر شریک ہوں گے؟ ہندو مذہب کے روایتی رکھوالے آج اپنا ادھار لینے آ گئے ہیں۔ اب یہ ہندو سماج کے لئے ایک تاریخی موڑ ہے۔ کیا چھوٹی زات سے اقتدار کے لئے کیے گئے وعدے پورے ہوں گے؟
0 تبصرے