پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ پرویزالٰہی کو186 ارکان نے اعتمادکاووٹ دیدیا،پنجاب اسمبلی میںرات12بجے کے بعد ووٹنگ

کیلئے نیاسیشن ہوا،اپوزیشن نے ووٹنگ کابائیکاٹ کیا،وفاقی وزیرداخلہ راناثنااللہ نے کہاکہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس غیرآئینی ہے تسلیم نہیں کرتے،ایوان میں شدیدہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی،حکومت اور اپوزیشن ارکان میں ہاتھاپائی ہوئی اور کرسیاں چل گئیں۔ گورنر پنجاب نے وزیر اعلی پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم دیا تھا،لیکن اس میں وقت مقرر کر دیا تھا کہ اس دوران اعتماد کا ووٹ لیا جائے،وزیر اعلیٰ پنجاب نے گورنر کے احکامات کو اس بنا پر نظر انداز کر دیا تھا کہ گورنر اعتماد کا ووٹ لینے کا کہ تو سکتا ہے لیکن وقت کا تعین نہیں کر سکتا ،جس بنیا د پر گورنر پنجاب نے وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کو کہا تھا لیکن وزیر اعلیٰ مقررہ دن اور وقت پر اراکین پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ نہ لے سکے، اس لئے انہیں ڈی نوٹیفائی کیا گیا ہے۔ ڈی نوٹیفائی ہونے کے بعد کابینہ تحلیل ہو گئی ہے ۔جسے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے عدالت میں چیلنج کیا ، لاہور ہائی کورٹ نے اس کیس کی سماعت کے لیے لارجر بنچ تشکیل دیا تھا۔درخواست میں چوہدری پرویز الٰہی نے مؤقف اپنایا تھاکہ سپیکر کے اجلاس نہ بلانے پر وزیر اعلیٰ اور کابینہ کو ڈی نوٹیفائی کرنا غیر آئینی ہے۔درخواست میں لاہور ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ عدالت گورنر کا نوٹفکیشن کالعدم قرار دے۔معزز بینچ نے فریقین کو نوٹس جاری کرنے کے بعد ،ان کا موقف سنا ۔ابھی کیس کی سماعت جاری ہی تھی کہ گزشتہ روز چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا ۔سینئر صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال اور وزیر قانون راجہ محمد بشارت نے آئین کے آرٹیکل (7)130کے تحت ایوان میں قرارداد پیش کی،سیکرٹری اسمبلی نے اعتماد کے ووٹ کے طریقہ کار سے متعلق ایوان کو آگاہ کیا،جس کے بعد شب قریباً پون ایک بجے اسمبلی اور لابی کے تمام دروازے بند کردیئے گئے اور سپیکرمحمد سبطین خان نے اعلان کیا کہ جو ارکان پرویز الٰہی پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں وہ اپنا نام نوٹ کراکے باہر لابی میں چلے جائیں۔آئین کے اندر یہی طریقہ کار ہے ،اسی کے مطابق چوہدری پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ لیا ہے ،سپیکر صوبائی اسمبلی نے اعتماد کے ووٹ کی رپورٹ گورنر کو بھیج تو گورنر پنجاب نے اس فورا قبول کرتے ہوئے چوہدری پرویز الہٰی کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا۔جس کے بعدعدالت نے چیف سیکریٹری پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ کو ہٹانے کا 22 دسمبر کا نوٹیفکیشن کالعدم کرتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔یہ سب کچھ آئین و قانون کے مطابق ہوا ہے ،جس کے بعد اپوزیشن کو اب جھوٹا پروپیگنڈا چھوڑ کر پنجاب کی ترقی کے لیے حکومت کا دست وبازو بننا چاہیے کیونکہ وطن عزیز کی مشکلات ختم ہونے میں نہیں آ رہیں۔ جو طبقات با اختیار ہیں وہ ان مشکلات میں کمی کی بجائے اضافہ کرتے نظر آتے ہیں۔ سیاسی کشمکش اور کھینچا تانی کسی اصول قاعدے کی پابند نہیں رہی۔صف بندی اس طرح سے کی گئی ہے کہ ریاست کا مفاد ایک جانب اور سیاسی جماعتیں دوسری جانب ۔ملک کو لاحق معاشی بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔22کروڑ آبادی والا ملک 5ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ساتھ بمشکل ایک ماہ تک اپنی ضرورت پوری کر سکے گا۔دنیا قرض اور امداد دینے سے کترا رہی ہے۔جنیوا میں جن پیسوں کی یقین دہانی کروائی گئی ہے ،جس کے اعلان پر حکمران طبقہ اترا رہا ہے ،مگروہ ا بھی صرف وعدے ہیں جو اگلے تین برسوں میں پورے ہونے ہیں ۔ملک بھر میں عوام آٹے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہیں،امن وامان کی صورتحال مخدوش ہے جبکہ وفاقی وزیر داخلہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حکومت گرانے کے درپے ہے ۔پنجاب 12کروڑ آبادی کا صوبہ ہے‘ اس قدر بڑے صوبے میں جب آئینی بحران رہے گا تو اس کا اثر قومی سطح پر ضرور ظاہر ہو گا۔سٹاک مارکیٹ‘ غیر ملکی سرمایہ کاری‘ برآمدات ‘ مہنگائی‘ بے روزگاری جیسے شعبے حکومت کی توجہ چاہتے ہیں۔مگر پورا وفاق ایک صوبے میں عدم استحکام پیدا کرنے پر لگا ہوا ہے،تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کے درمیان لڑائی کی جتنی مرضی جہتوں کو زیر بحث لایا جائے یہ امر کسی شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ اس لڑائی نے ملک کے مسائل بڑھائے ہیں۔ پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ پی ڈی ایم کے پاس حکمرانی کا مینڈیٹ نہیں ،اس لئے ملک میں عام انتخابات کر وائے جائیں۔تحریک انصاف کے مطالبہ کو عوامی حمایت حاصل ہے۔ اس کا ثبوت رواں برس ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج ہیں۔جبکہ وفاق میں موجود پی ڈی ایم کی حکومت مسلسل پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت کو ختم کرنے کی کوشش میں ہے۔اب بھی پی ٹی آئی کےو خوشحالی سے زیادہ اپنے خاندانوں اور مفادات کو کیوںمقدم رکھا ہوا ہ چار ارکان نے اپنے پارلیمانی لیڈر کے واضح احکامات کے باوجود وزیر اعلیٰ پنجاب کو ووٹ نہیں دیا ،جن کے خلاف پی ٹی آئی ریفرنس لانے کا اعلان کر چکی ہے غیر ضروری مداخلت اور گڑ بڑ کی وجہ سے پنجاب میں حالات خراب ہو رہے ہیں۔مگر اس کے باوجود وزیر اعلیٰ پنجاب صوبے بھر میں ترقیاتی کاموں میں مگن ہیں۔سوال یہ پید اہوتا ہے کہ سیاستدان اپنی لڑائی میں ریاست کے مفادات کو کیوں قربان کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ملک کی ترقی ے ؟