
“ایک اندھے نے ڈرتے ڈرتے ہاتھ بڑھایا اور یکدم چیخ اٹھا”سائنس و ٹیکنالوجی!”۔ دوسرے نے یہ سن کے ہمت پکڑی اور قدم لیا، “نہیں نہیں، ڈیموکرسی!”۔ تیسرے کی طرف سے آواز آئی “کیا بک رہے ہو، میں بتاتا ہوں ٹھیرو۔۔۔ارے یہ تو موڈرنٹی ہے!”۔ پیچھے سے ایک ہلکی سی آواز آئی “بھئی مجھے تو یہ فری اسپیچ لگ رہا ہے”۔ چلا چلا کے آپس میں لڑنے لگے “فیلوسوفی!”، “ڈیکولونیلزیشن”، “انڈسٹریلائزیشن!”، “ابے فری مارکیٹ کیپیٹلزم!” ۔ جانور نے اس سب ہنگامے سے تنگ آکے کروٹ لی اور تین چار اندھوں کو کچل ڈالا۔”
جن اژدہوں نے اس وقت ہمارا اندھیر ویرانی میں تعقب کیا ہوا ہے انہیں نہ تو ہم دیکھ سکتے ہیں، نہ پہچانتے ہیں، نہ ان کے عزائم سمجھتے ہیں، اور نہ ان سے لڑ سکتے ہیں، جبکہ ہماری تلواروں کو زنگ لگ چکا ہے اور نئے ہتھیار تراشنے کا ہنر ہم کب کا بول گئے ہیں اور لوہار کی بھٹی کی آگ بھی کب کی بجھ چکی ہے۔
اس وقت جب ایک جم غفیر اس تاریکی میں ایک دائرے کی بھیڑ چال میں پھنسا ہوا ہے ، اس وقت یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ ہم میں سے چند اپنے آپ کو اس افراتفری سے نکالیں، اس لوہار کی بھٹی کی آک کو ایک بار پھر سلگانا سیکھیں، تاکہ اس کی روشنی شعور والوں کے لیے مشعل راہ بنے، اور وہ اوزار اور ہتھیار بن سکیں جو اس وقت ہمیں اپنے سامنے خطرات سے نمٹنے کے لیے درکار ہیں۔
ہماری موجودہ زوال کی کیفیت اور مغربی ترقی اور غلبے کے اسباب در اصل باطنی ہیں، جبکہ ہماری پوری توجہ ان کے ظاہری علامات اور فوری علاج کی کوششوں میں بٹی رہتی ہے اور ہم حقیقی شفا سے محروم ہو جاتے ہیں۔
دراصل ہماری مثال ان اندھوں کی سی ہے جنہوں نے ہاتھی کی حقیقت سمجھنا چاہی لیکن جس نے اپنے ہاتھوں سے ہاتھی کے جسم کے جس حصے کو چھوا اس نے پورے ہاتھی کی وہی تعریف مان لی۔ جس کے ہاتھوں سونڈ آئی اس نے ہاتھی کو سانپ جیسا مان لیا، جس نے اس کی ٹانگ کو محسوس کیا اس نے کہا کہ یہ تو درخت جیسا ہے، جس نے دم پکڑی اس کو جھاڑو لگا اور جس نے اس کے دانت پکڑے اس نے تلوار، وغیرہ۔
اس ہی طرح جنہوں نے مغربی افواج سے شکست کھائی وہ یہ مان بیٹھے کہ سارا معاملہ بہتر اسلحے کا ہے۔ جنہوں نے ان کی معیشت دیکھی وہ کہتے ہیں بات بس دولت کی ہے۔ جنہوں نے ان کا رہن سہن دیکھا وہ کہتے ہیں بس اس ہی طرز کے لباس و مشروبات اپنا لو، کچھ کے لئے سائنس ہی وہ تلسمی راز ہے جس سے سب ممکن ہے، کوئی کہتا ہے لادینیت میں علاج ہے، کوئی کہتا ہے ترز حکومت اور کسی کے لیے واحد حل انگریزی تعلیم۔ ایسوں کی بھی کوئی کمی نہیں جنہوں نے زد پکڑی ہوئی ہے کہ مغرب سے منسلک ہر شے کی بلا غور و منتق مکمل رد میں ہی بقا ہے بے شک اس کا نقصان جو بھی ہو۔

اس اندھوں کی نگری سے کسی عقل و حکمت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ جب تک ان کی بینائی نہیں لوٹائی جاتی، یہ اپنی یا کسی کی بھی حالت بدلنے کے اہل نہیں۔ اس حالت میں ترجیح صرف یہی ہونی چاہیے ہے کہ ہم اپنی اجتماعی قوت بصارت میں اضافہ کریں اور وہ اسباب پیدا کرنے کی کوشش کریں جن سے ہم اپنی تاریخی، علمی، اخلاقی اور تمدنی حقیقت کو جان سکیں۔ جس لمحے ہماری بینائی لوٹ جائے گی تو یہ بھی سب کے لیے یکسر یہ واضح ہو جاۓ گا کہ اگلی منزل کیا ہے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے کیا درکار ہے۔
اس وقت ہم اپنے سوالوں کے جواب دینے کے قابل نہیں ہیں۔ ابھی ہمارا مقصد محض ان آنے والے مسافروں کے لئے پل اور سرائےتعمیر کر کے راہ ہموار کرنا ہے جو ہمارے کندھوں پر کھڑے ہو کر افق تک نظریں دوڑائیں اور وہ منزلیں طے کریں جن کا ابھی ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔

ہوں گرمیِ نشاط تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیب گلشن نا آفریدہ ہوں
(یعنی :میں اس پھولوں کا باغ کا بلبل ہوں جو ابھی کسی نے نہیں دیکھا اور اس کے نغمے گاتا ہوں)
غالب
0 تبصرے