وزیر اعظم شہباز شریف نے یوم پاکستان کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کا مستقبل آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے میں مضمر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہو گا‘ آئیے خود احتسابی کا راستہ اختیار کریں تاکہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ کر سکیں۔وزیر اعظم نے اور بھی ایسے مثالی خیالات کا اظہار کیا جن کی عملی شکل قوم دیکھنا چاہتی ہے۔ وزیر اعظم کے ان خیالات کو ملک کے دو صوبوں میں انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔حکومت اور اس کے ماتحت ادارے الیکشن کمیشن کو کہہ چکے ہیں کہ وہ انتخابی عمل کے لئے فنڈز اور ضروری افرادی قوت فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔جواز پیش کرتے ہوئے بتایا جا رہا ہے کہ ملک میں امن و امان کی حالت خراب ہے اور فنڈز کی قلت ہے۔ گزشتہ 11ماہ کے دوران حکومت نے معیشت کی حالت بہتر بنانے کے لئے دو اقدامات پر انحصار کیا ہے۔کوشش کی گئی کہ آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج کی اگلی قسط مل جائے۔ساتھ ہی یہ تاثر مضبوط کیا گیا کہ آئی ایم ایف سے قرض اور اس کی شرائط پاکستانی معیشت کی تباہی کی وجہ ہیں۔ حکومت نے جس دوسرے معاملے پر زور دیا وہ ٹیکس محصولات میں اضافہ ہے۔ اس اصلاحاتی عمل کے دوران پہلے مفتاح اسماعیل اور پھر اسحق ڈار یہ فراموش کر بیٹھے کہ ٹیکس محصولات میں اضافے کے لئے جب منافع کی شرح کم ہو جائے تو پھر پروڈیوسر پیداواری عمل روک دیتا ہے۔پیداواری عمل رک جانے سے ٹیکس محصولات بھی کم ہو جاتے ہیں۔اچھے فنانس منیجر ہمیشہ ان شعبوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں‘ رعاتیں دیتے ہیں جو قومی دولت میں اضافہ کرنے کی استعداد رکھتے ہیں۔پی ڈی ایم کی پالیسیوں نے معاشی خرابی کو بڑھایا ہے‘ عوام کی حالت گواہ ہے کہ حکومت عوامی حمایت کھو چکی ہے۔حق حکمرانی کھونے کے بعد ملک میں نئے انتخابات کرائے جاتے ہیں۔حکومت اور اس کے اتحادی نئے انتخابات نہیں چاہتے۔انہیں اندیشہ ہے کہ عوام ان کی کارکردگی پر منفی انداز میں ردعمل دے سکتے ہیں۔ آئین پاکستان میں واضح ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے 90روز کے اندر انتخابات کرا دئیے جائیں۔ملک کے نمایاں سیاسی مبصرین اور شخصیات عام مباحث میں جمہوری روایات کی بات کرتی رہتی ہیں۔پاکستان میں جمہوریت زیادہ پرانی نہیں۔یہ پودا بار بار اکھاڑا جاتا رہا ہے۔اس ابتر صورت حال میں بھی ایک روایت تسلسل کے ساتھ نبھائی جاتی رہی ہے۔کسی رکن اسمبلی کی موت یا استعفے کی صورت میں متعین مدت کے اندر خالی نشست پر انتخاب کرایا جاتا ہے،اس پر کبھی تنازع نہیں اٹھا۔اس معاملے میں پی ڈی ایم دور کے سوا شاید ہی کبھی رکاوٹ پیدا کی گئی ہو‘ اسی طرح عام انتخابات کے متعلق صرف 2007ء میں بے نظیر بھٹو کی موت کے باعث انتخابی عمل چند ہفتوں کے لئے آگے کیا گیا ورنہ نوے کے عشرے میں جب اسمبلیاں بار بار توڑی گئیں تب بھی 90روز کی آئینی مدت کا احترام کیا گیا۔وزیر اعظم فرما رہے ہیں کہ ملک کا مستقبل آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے میں پوشیدہ ہے تو ان کی حکومت کو جان لینا چاہیے کہ الیکشن کا التوا غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدام تصور کیا جائے گا۔تاریخ میں زندہ رہنے کے لئے سیاسی شخصیات کو آئین پسندی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ آئین ریاست اور شہری کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا معاہدہ ہے۔ ریاست شہری کو حق دیتی ہے کہ وہ اظہار رائے‘ ووٹ‘ کاروبار‘ بنیادی سہولیات‘ انصاف اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ریاست کے پاس اپنی طاقت اور ذاتی خواہشات رکھ دے۔ سیاسی جماعتیں افراد کی اجتماعی سوچ کی مظہر ہوتی ہیں۔وہ بھی آئین کو ایسی مقدس دستاویز سمجھتی ہیں جو ریاست کے مختلف طبقات کے درمیان تنازعات حل کرنے کا متفقہ نظام فراہم کرتی ہے۔ اداروں کی رائے میں اختلاف ہو یا اختیارات کا جھگڑا ہو تو آئین کی تشریح کا کام سپریم کورٹ انجام دیتی ہے۔ سپریم کورٹ 30اپریل 2023ء کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم دے چکی ہے۔الیکشن کمیشن ایک آئینی خود مختار ادارہ ہے اس ادارے کا ایک ہی کام ہے کہ شفاف انتخابات کرائے جائیں۔موجودہ الیکشن کمیشن کے متعلق کئی بار گمان ہوا کہ وہ اپنے فیصلے خود نہیں بلکہ پی ڈی ایم حکومت کے کہنے پر کر رہا ہے۔اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے مسلسل التوا‘ کراچی میں پہلے بلدیاتی انتخابات سے پہلو تہی اور پھر ضمنی انتخابات نہ کرانا۔جماعت اسلامی اسے دھاندلی قرار دے رہی ہے کہ اسے میئر شپ سے محروم رکھا جا رہا ہے۔الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کے متعلق بھی بروقت فیصلے کرنے سے قاصر نظر آیا۔اب جب حکومت کو خدشہ ہے کہ پنجاب میں انتخابات میں اسے شکست ہو سکتی ہے‘ اس شکست کے اثرات آئندہ قومی اسمبلی کے انتخابات پر مرتب ہو سکتے ہیں ۔یوں پی ڈی ایم کو پنجاب اور مرکز ایک بار پھر ہاتھ سے جاتے نظر آ رہے ہیں تو ان کے لئے صوبائی انتخابات سوہان روح بن رہے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف جس مضبوط عزم کے ساتھ آئین کی پابندی کی بات کر رہے ہیں وہ آئین کی حرمت کو پامال دیکھنے والوں کو حوصلہ دیتی ہے کہ ان برے وقتوں میں بھی سربراہ حکومت آئین کی بالادستی کی بات کر رہے ہیں۔وزیر اعظم ایک قدم آگے بڑھیں اور پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی قوتوں سے نئے انتخابات پر مشاورت کا آغاز کریں ورنہ ان کے پر عزم خیالات کو تضادات کا مجموعہ سمجھا جا سکتا ہے .
آئین پر عمل کے متضاد دعوے
1 بار پسند کیا گیا
0 تبصرے
0 تبصرے