
وطن کے لوگ بیرونی قوتوں کی غلامی اور حکومت میں مداخلت سے تنگ آ گئے اور حقیقی آزادی حاصل کرنے کے جذبے سے، ان کا جم غفیر، دارالحکومت کا احاطہ کرنے پہنچ کیا، تاکہ ان کے عزیز سربراہ کو پھر سے اقتدار حاصل ہو جاۓ۔
شاید آپ کو لگا ہو کہ میں کسی موجودہ واقع کا ذکر کر رہا ہوں لیکن در اصل میں 1857 میں جنگ آزادی کے دوران دہلی میں پیش آنے والے واقعات کا منظر بیان کر رہا تھا۔ تاریخ گزرے لمحات کو ہو بہو دہراتی تو نہیں لیکن اگر ماضی کے واقعات کی بازگشت سنائی دے تو اس میں ہمارے لیے کوئی بصیرت ضرور ہو سکتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ 165 سال کے باد بھی کچھ بنیادی حقائق نہیں بدلے اور ہم آج بھی حقیقی آزادی اور خودمختاری کی کھوج میں ہی ہیں۔ کیا اب بھی اس شور و غل کا انجام وہی ہو گا جو تب تھا؟ یہ تو وقت ہی بتاۓ گا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جس نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا وہ ماضی کو دہرانے کا پابند ہوتا ہے۔
ہم نے کیا کبھی سنجیدگی سے سوچا کہ کیا حقیقی خودمختاری ممکن بھی ہے کہ نہیں؟ اور اگر ہے تو اس کو حاصل کرنے کے لیے کیا درکار ہے اور اس کی کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی؟ تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکیزہ خواہشات، نیک تمنائیں اور جذبہ قربانی کتنا بھی بلند ہو، وہ خودمختاری جس کے ہم منتظر ہیں، محض جذباتیات، اقتدار کی تبدیلی، جلسے، یہ کسی جنگ و جدال کے نتیجے میں حاصل نہیں کی جا سکتی بلکہ اس کے لیے پہلے ہمیں عاجزی کے رویے سے اپنی کمی کوتاہیوں کی نشان دیہی کر کے ایک مشکل اور طویل عمل سے گزرنا ہو گا جس کے نتیجے میں ہماری اجتماعی فکری، تمدنی اور اخلاقی بنیادوں کی احیا وجود میں آۓ۔
1857 کی شکست نے اس وقت کے لوگوں پر یہ واضح کر دیا تھا کہ اب جودمختاری میدان جنگ میں نہیں حاصل کی جا سکتی بلکہ اس کے لیے قوم کی اخلاقی ،روحانی اور علمی تعمیر نو درکار ہے جس میں کئی دہائیاں لگ جائیں گی۔ جو علما دین خونریزی اور قید سے بچ گئے انہوں نے طے کر لیا کہ اب صرف روحانی و اخلاقی تبلیغ کا رستہ باقی ہے۔ سر سید کو جک پیشکش ہوئی کہ باغیوں میں شامل ہو جائیں تو جواب میں یہ کہ کے انکار کر دیا کہ اگر ہندوستان وقتی طور پر آزاد بھی ہو جاۓ تو علم و ضبط کا اس قدر فقدان ہے کہ عملداری پھر بھی فرنگیوں کی ہی رہے گی اور اپنی زندگی قوم کی تعلیم و تربیت کی مہم میں گزار دی۔ دونوں نے اپنے مطابق بالکل صحیح رستے کی نشان دیہی کی اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے بے مثال خدمات سر انجام دئیے، وہاں ان کی تحاریک زمانے کے حالات کی مجبوریوں اور مصلحت کی وجہ سے محدود ہو گئیں۔
بد قسمتی سے ہم فوری حل اور جگاڑ کے عادی ہیں اور چاہتے ہیں کہ جب کوئی مصیبت آۓ تو کہیں سے کوئی مرد مجاہد یہ مسیحا ناضل ہو جاۓ جو ہمیں فرعون وقت سے نجات دلا دے۔ الہ کا کرم ہوا کہ ایسے ہی ایک انسان کی کاوش سے ملک تو مل گیا لیکن ہم اپنی حقیقی تعمیر نو کے کام سے غافل ہو گئے جو ہمارے اس نئے ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کر دیتا اور حقیقی آزادی آج ہماری پہنچ میں ہوتی۔ ابھی بھی دیر نہیں اور جدھر ہمارے ایک طبقے کی توجہ ہر لمحے کسی نئی آگ بجھانے اور کسی نازک موڑ سے گزرنے میں لگی رہتی ہے، وہاں اگر ایک گروہ اس دور رس علمی، فکری اور اخلاقی جد و جہد کو آگے بڑھاۓ تو ہم اس مقام پر پہنچ جائیں کہ کوئی آگ ہمیں پھر نہ چھو سکے اور ہم اپنا آگے کا رستہ خود تعین کریں۔
0 تبصرے