پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا، اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جس کا اس کو علم نہ تھا (سورہ علق)

زبان انسانی تہزیب اور تمدنی ترقی کی بنیاد ہے۔ ہماری بولنے کی صلاحیت سے ایک ایسا زندہ اجتماعی شعور پیدا ہوتا ہے جو ہمارے جسمانی اور حیاتیاتی حدود سے ماورا ہے۔ لکھنے کا عمل ہمیں ایک لمحے میں سینکڑوں نسلوں قبل یا ہزاروں میل دور ایک اور شخص سے ایسے رابطے میں لے آتا ہے جیسے وہ سامنے بیٹھا ہو۔ انسان اور حیوان میں ایک بنیادی فرق یہی ہے کہ جہاں قدرت میں جنسی افزائش سے جسمانی اور جینیاتی صفات صرف اولاد کو منتقل ہوتے ہیں، وہاں قلم کی بدولت صرف انسان اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ رشتہ و نسل سے ماورا کسی کے بھی لکھے خیالات، احساسات، علم و حکمت کا وارث بن جاۓ۔

نظم و نثر کے ایسے نمونے، جو اپنے دور کے شاہد یہ مشعل ثابت ہوۓ، یعنی جنہوں نے اپنے زمانے کے واقعات کو یہ تو بیان کیا یہ متاثر کیا، اور پھر نسل در نسل منتقلی اور تاریخ کی کنجی سے گزرنے کے بعد بھی جن کے اندر موجود حکمت کی تازگی اور آفاقیت برقرار رہ جاتی ہے، وہ شاہکار یہ کلاسیکس کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ ایسے شاہکار اکثر جس زبان میں تخلیق کیے جاتے ہیں وہ اس زبان کا خود مثالی نمونہ بن جاتے ہیں اور اس زبان بولنے والوں کے روزمرہ کے کلام سے لے کر اعلی علم و ادب میں استعمال ہونے والے محاورے، مثالیں، کہاوتیں، حوالے، القاب اور منظر فراہم کرتے ہیں اور ان کے اجتماعی تصور انسان اور تصور کائنات کو تشکیل دیتے ہیں جو ان کی احساس قومیت کی بنیاد بنتی ہے۔