تاریخ میں کئی مفکرین نے جب اپنے معاشروں کا تنقیدی مطالعہ کیا تو اس کے لیے کسی ایسے بنیادی جز کا انتخاب کیا جو اس زمانے اور معاشرے کے حالات اور سیاق و سباق سے مناسبت رکھتا ہو تاکہ اس کی بنی اینٹوں سے ایسا خاکہ تیار کیا جا سکے جس کی مدد سے وہ اپنے حالات کے اسباب اور مسائل کے حل تالاش کر سکین۔

افلاطون کے لئے کائنات کامل اشکال پر مبنی تھی اور اس معیار کامل کی تالاش کو انسان کا مقصد قرار دیا۔ مارکس نے اپنے زمانے کی صنعتی ترقی اور اس کے نتیجے میں معاشرتی اضطراب کو سمجھنے کے لئے سرمائے کو اپنے مطالعے کی نیاد بنایا۔ فرائڈ کے لئے انیسویں صدی کے قدامت پسند معاشرے میں جنسی جبلت میں ہی تمام انسانی محرکات کا راز تھا۔

میرا دعوہ ہے کہ اس ہی طرح ہمیں اپنے موجودہ معاشرے اور تاریخ کی مناسبت سے اپنا تنقیدی جائزہ زبان کی بنیاد پر کرنا چاہئے اور اس ہی سے ہمارے مثائل اور ان کے حل واضح ہوں گے۔