لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
چمن زنگار ہے آئینۂ باد بہاری کا
حریف جوشش دریا نہیں خودداری ساحل
جہاں ساقی ہو تو باطل ہے دعویٰ ہوشیاری کا
بہار رنگ خون گل ہے ساماں اشک باری کا
جنون برق نشتر ہے رگ ابر بہاری کا
برائے حل مشکل ہوں ز پا افتادۂ حسرت
بندھا ہے عقدۂ خاطر سے پیماں خاکساری کا
بہ وقت سرنگونی ہے تصور انتظارستاں
نگہ کو آبلوں سے شغل ہے اختر شماری کا
اسدؔ ساغر کش تسلیم ہو گردش سے گردوں کی
کہ ننگ فہم مستاں ہے گلہ بد روزگاری کا
0 تبصرے